بغداد25ستمبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)عراق کے شمالی صوبے کے شہر تکریت کے نواح میں تین عسکریت پسندوں کے خود کش حملے میں ایک درجن سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ حملہ ایک چیک پوائنٹ پر کیا گیا۔ دو درجن سے زائد زخمی ہیں۔یہ حملہ تکریت شہر کے نواحی علاقے الاسلام میں قائم ایک فوجی چیک پوسٹ پر کیا گیا۔ تین خود کش حملہ آوروں نے بارود سے لدی موٹر گاڑی چپک پوسٹ سے ٹکرا دی اورعین اُسی وقت قصبے کے دوسری جانب واقع چیک پوسٹ پر فائرنگ کا واقع بھی رونما ہوا۔تکریت شہر کو عراقی فوج نے گزشتہ برس اپریل میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے قبضے سے چھڑایا تھا۔ جہادی گاہے گاہے اِس شہر کے اندر اور نواحی علاقوں میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔بغداد سے تقریباً ایک سو ساٹھ کلومیٹر کی دوری پر تکریت کا شہر شمالی صوبے صلاح الدین کا انتظامی صدر مقام بھی ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب صوبائی پولیس کے چیف اور صوبائی سلامتی کمیٹی کے سربراہ چیک پوائنٹ اور اُس کے گرد و نواح کے دورے پر تھے۔ حملے میں دونوں اہم اہلکار بال بال بچ گئے۔ خیال کیا گیا ہے کہ یہ حملہ ان افراد کو ہلاک کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔صلاح الدین صوبے کے گورنر احمد الجبوری نے اِن حملوں کی ذمہ داری جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ پر عائد کی ہے۔ الجبوری نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایسے دہشت گردانہ حملوں کا بدلہ داعش کے جہادیوں اورکمانڈروں کے سر قلم کر کے لیا جائے گا۔ الجبوری نے یہ بھی کہا کہ اس عمل میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔گورنر نے اپنے صوبے کے سکیورٹی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سلامتی کے منصوبوں پر نظرثانی کریں اور عوام کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ابھی تک کسی عسکریت پسند گروپ نے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ بغداد حکومت کا خیال ہے کہ سنی عقیدے کے عسکریت پسند تکریت میں تعینات سکیورٹی فورسز کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ سابق آمر صدام حسین کا آبائی شہر بھی ہے۔دوسری جانب عراقی فوج امریکا اور دوسرے اتحادیوں کی مدد سے ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کی بازیابی کی پلاننگ کر رہی ہے۔ موصل شہر کو اسلامک اسٹیٹ کی عراق میں سرگرمیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ عراقی سرزمین پر فوج کی کامیاب پیشقدمی کے بعد اسلامک اسٹیٹ کو پسپائی کا سامنا ہے۔ موصل اِس جہادی تنظیم کا اب آخری ٹھکانہ ہے۔